گر نمی آنکھ کی صحرا کو عطا ہو جائے
اس سِسکتی ہوئی مٹی کا بھلا ہو جائے
جو تِری آنکھ میں ہے میرے دروں تک آئے
جو تِرے دل میں ہے وہ میری صدا ہو جائے
دشت کو کھینچ کے لاؤں گا یہاں آنگن تک
رُوحِ مجنوں کو اگر مجھ سے گِلہ ہو جائے
آسماں اپنی اُداسی پہ کرے گا ماتم
ان ستاروں سے اگر چاند خفا ہو جائے
روشنی ہاتھ بڑھائے میری دیواروں تک
تو اندھیرا میرے حُجرے سے جُدا ہو جائے
عرفان محبوب
No comments:
Post a Comment