Tuesday, 13 May 2025

وینٹیلیٹر جسم کو نقلی سانسوں سے بھرتا تھا

 وینٹیلیٹر جسم کو نقلی سانسوں سے بھرتا تھا

میں زندہ تھا اخراجات کے بوجھ تلے مرتا تھا

سڑک پہ پیلے پیلے بیریر سب کا رستہ روکیں

لیکن میں چلنے کا رسیا رکنے سے ڈرتا تھا

دھرنے پہ بیٹھنے والے پاگل پچھڑی ذات کے تھے سب

ڈی ایس ایل آر والا بس فوٹو سیزن کرتا تھا

اک تصویر میں لہرایا نیلی ساڑی کا پلو

ایک دوانہ اس تصویر پہ می رقصم کرتا تھا

رات کے ساتھ جو بات گزرتی شام کو واپس لاتا

شام ڈھلے سے رات گئے تک روز یہی کرتا تھا

شیکسپئیر نے جو لکھا ہے اس کی اپنی قیمت

میں تھا اردو والا آغا حشر کا دم بھرتا تھا

رات کے دل میں جھانکتے جھانکتے رات گزرتی ساری

صبح الارم سن لیتا تھا پھر بستر کرتا تھا

خود کو نطشہ زادہ کہتا پر سونے سے پہلے

انگریزی میں کرسی پڑھ کر خود پر دم کرتا تھا


اسامہ ذاکر

No comments:

Post a Comment