Tuesday, 13 May 2025

خشک آنکھوں کی کہانی دشت دشت اپنی ہی تھی

 خشک آنکھوں کی کہانی دشت دشت اپنی ہی تھی

نم ہواؤں میں صدائے بازگشت اپنی ہی تھی

ڈھونڈتے پھرتے رہے تھے سایہ سایہ زندگی

دھوپ کی گلیوں میں صبح و شام گشت اپنی ہی تھی

جاگتی رہتی تھیں آنکھیں خانہ خانہ خوف خوف

خواب کی روشن نمائی طشت طشت اپنی ہی تھی

جنگلوں سے شہر تک شانہ بہ شانہ پشت پشت

سلسلہ کرتی ہوئی وہ سرگزشت اپنی ہی تھی

میری خوش طبعی نہ تھی روئے غریب شہر ہاں

شہر یاروں میں مزوج خوئے زشت اپنی ہی تھی

کرتے تھے پرویز رحمانی اجالے گل کشید

شب گرفتہ وادیوں میں خار گشت اپنی ہی تھی


پرویز رحمانی

No comments:

Post a Comment