Saturday, 3 May 2025

بارش ہوئی تو شہر کے تالاب بھر گئے

 بارش ہوئی تو شہر کے تالاب بھر گئے

کچھ لوگ ڈُوبتے ہوئے دُھل کر نکھر گئے

سُورج چمک اُٹھا تو نگاہیں بھٹک گئیں

آئی جو صُبح نو تو بصارت سے ڈر گئے

دریا بپھر گئے تو سمندر سے جا ملے

ڈُوبے جو ان کے ساتھ کنارے کدھر گئے

بُجھتے ہوئے چراغ ہتھیلی پہ جل گئے

جھونکے تمہاری یاد کے دل میں اُتر گئے

سوچا تمہیں تو درد کی صدیاں پگھل گئیں

دیکھا تمہیں تو وقت کے دریا ٹھہر گئے

تم تو بھری بہار میں کھلتے رہے مگر

ہم زخمِ کائنات تھے کانٹوں سے بھر گئے

عشرت! شبِ نشاط کے جگنو لیے ہوئے

ہم جشن زرنگاہ میں پریوں کے گھر گئے


عشرت رومانی

No comments:

Post a Comment