Friday, 2 May 2025

اپنے ہی گھر کے سامنے ہوں بت بنا ہوا

 اپنے ہی گھر کے سامنے ہوں بت بنا ہوا 

پردے ہٹے ہوئے ہیں دریچہ کھلا ہوا 

یوں ہی ادھر ادھر کی سناتے رہو مجھے 

موسم بہت اداس ہے دل ہے دکھا ہوا 

آواز دے کے پوچھ لو کیا ہو گیا اسے 

وہ شخص جا رہا ہے بہت سوچتا ہوا 

کیوں دیکھتا ہے اجنبی نظروں سے وہ مجھے 

میں بیٹھے بیٹھے جیسے کوئی دوسرا ہوا 

حرف دعا ہے پاس نہ لب پر شکایتیں 

جو کچھ ہوا یہاں پہ وہ یا رب برا ہوا


جاوید ناصر

No comments:

Post a Comment