آنگن میں پیڑ ہو گا تو پتھر بھی آئے گا
اس گھر تلک جو آ گیا، اندر بھی آئے گا
رکھو گے گر نہ فاصلہ تیشہ گروں سے تم
اڑ کے تمہاری آنکھ میں کنکر بھی آئے گا
سُلگا کے چلے آئے ہو جو آگ صحن میں
اس کا دُھواں اب گھر سے باہر بھی آئے گا
گرد و غبار چھٹنے دو اک بار راہ سے
تم کو نظر پھر صاف وہ منظر بھی آئے گ
اس نے اگر کچھ دیر یہاں ٹھہرنا ہوا
لے کے وہ ساتھ بوریا بستر بھی آئے گا
میں چھوڑ آئی تھی جہاں یادوں کی گٹھڑیاں
اس راستے میں آج وہی گھر بھی آئے گا
رکھا ہوا ہے جس کو زنداں میں اب تلک
وہ شخص ایک دن شمیم باہر بھی آئے گا
شمیم چودھری
No comments:
Post a Comment