ضمیر چپ ہے اگر یہ گمان کرنے لگوں
جو سوچتا ہوں وہ سب کچھ بیان کرنے لگوں
یہ آنسوؤں کے ستارے، یہ درد کا سورج
خیال خود کو نہ میں آسمان کرنے لگوں
کہیں سے پھر کوئی پر مانگتا ہوا آئے
تلاش اپنے لیے جب اڑان کرنے لگوں
جو حال پوچھ رہا ہے وہ جانے کیا سمجھے
اگر میں اپنے مسائل بیان کرنے لگوں
قلم ملا ہے تو کردار یہ نہیں میرا
ورق ورق پہ رقم داستان کرنے لگوں
بتا رہے ہو کوئی رتھ ادھر سے گزرے گا
کہو تو منہدم اپنا مکان کرنے لگوں
مہتاب عالم
No comments:
Post a Comment