Tuesday, 6 May 2025

عجب ستم ہے کہ تیرے حصے سے گھٹ رہا ہوں

 عجب ستم ہے کہ تیرے حصے سے گھٹ رہا ہوں

میں تیرا ہو کر بھی اور لوگوں میں بٹ رہا ہوں

تو ایک سیل رواں کی صورت گزر رہا ہے

میں اک جزیرہ ہوں ہر کنارے سے کٹ رہا ہوں

کھلیں گے اسرار عشق عزلت نشینیوں میں

میں ایک دنیا سے ایک دل میں سمٹ رہا ہوں

اگر تجھے عشق تاش کا کھیل لگ رہا ہے

تو لے میں اپنے تمام پتے الٹ رہا ہوں

ازل ابد کے سبھی مسائل پہ بات ہوگی

ابھی تو اے زندگی میں تجھ سے نمٹ رہا ہوں

ستارے جوں جوں فلک سے معدوم ہو رہے ہیں

مجھے یہ لگتا ہے میں بھی منظر سے ہٹ رہا ہوں


اویس ملک

No comments:

Post a Comment