یہ کہاں کی الفت ہے دور دور رہتے ہو
میرے تو نہ بن پائے مجھ کو اپنا کہتے ہو
مل کے بانٹ لیں گے ہم رنج اور خوشی اپنی
درد پھر جو ہوتا ہے کیوں اکیلا سہتے ہو
میرا کچھ کہا تیرے دل کو لگ گیا شاید
بات بھی نہیں کرتے کھوئے کھوئے رہتے ہو
مجھ سے جو شکایت ہے مجھ سے ہی کہو مل کے
غیر سے ہی ملتے ہو غیر سے ہی کہتے ہو
ٹھیس جب بھی لگتی ہے میرا دل دھڑکتا ہے
تم جدا نہ ہو جاؤ چشم تر میں رہتے ہو
کس طرح ملوں تم سے ایک جا نہیں رکتے
آندھیوں سے چلتے ہو مثل دریا بہتے ہو
اس نے یہ کہا ساگر سن کے میری غزلوں کو
کر دیا ہے دلدادہ شعر ایسے کہتے ہو
ساگر اکبرآبادی
No comments:
Post a Comment