ٹریش کین
کباڑ اے کباڑ اے
ہر اتوار کی دوپہر میں
بگولہ صفت دندناتی کباڑی کی آواز
خوابیدہ گلیوں کی
چُپ کا فسوں توڑتی ہے
تو جی چاہتا ہے
اٹھوں اور گھر کے
ہر اک کونے کُھدرے سے
الماریوں اور درازوں میں ٹھونسی ہُوئی
بے ضرورت سی اشیا کو اس کے حوالے کروں
جیسے جیسے ان اشیا کی جانب
مِرا ہاتھ بڑھتا ہے
اس سے جُڑی کوئی خواہش
مجھے ٹوکتی ہے
سنو تُم ٹھہر جاؤ
ممکن ہے اس کا کوئی اور مصرف نکل آیے ورنہ
یہی سوچتے سوچتے
تیس برسوں میں
میں نے بہت رنج اکٹھا کیا
جو اندوختہ دل کی الماریوں میں پڑا تھا
وہ سب کوڑے دانوں میں
جاتا تو اچھا تھا
گہری گھنی نفرتوں
ناگواری کے سانپوں کی پُھنکار کا زہر
اور زنگ کھائی ہوئی
نارسا حسرتوں کی رگِ جاں میں
یلغار کی آگ سے
تا بکے میرے جیون کا
ریشم جھلستا رہے
سانس بھر
میری بے دھیانی کی لہر
مجھ سے لپٹتی ہے
پھر اس کی آواز سے
میرے کانوں کے پردے
عذاب آشنا ہونے لگتے ہیں
میں خوف سے
زرد پڑتی ہوں
وہ ٹین ڈبے
گئی گزری پوشاکیں
اور ٹانکے کھائی ہوئی
چپلوں اورجوتوں کو لے جائے گا
ہاں مگر میرے اندر کی دنیا کے
سامان کا فالتو پن
مِری ذات کی گھاٹیوں سے
لڑھکتا ہُوا میری نیندوں کے
٭اعماق میں آ گرے گا
کباڑی کی آنکھیں
مِری روح میں میرے ہونے کی
دیوار کی کہنہ تمثال
درزوں میں
گزرے زمانوں کی
ٹھونسی ہوئی
خوابچوں حسرتوں نارسائیوں کی
ان پوتھیوں کو
کہاں دیکھتی ہیں
مہناز انجم
٭اعماق: جمع گہرائیاں جس کا مفرد عمیق یعنی گہرائی۔ جوانیب، جوار
No comments:
Post a Comment