Thursday, 8 May 2025

ہم خاک تھے لیکن نہ قدم خاک پہ رکھا

 ہم خاک تھے لیکن نہ قدم خاک پہ رکھا

جو گرد اڑائی اسے افلاک پہ رکھا

مٹھی تھی ہواؤں میں کہ مٹھی میں ہوا تھی

کیوں کارکسانی خس و خاشاک پہ رکھا

سیراب کیے ابر منافق نے مِرے کھیت

لہرانے لگی فصل تو چکماک پہ رکھا

دریا ہو ہوا دشت، یہ کی ریت نے ترکیب

مچھلی کی جگہ ابر کو تیراک پہ رکھا

ہر بار کبوتر🕊 کو اچکنے لگے شاہین

تب زاغ کو تنگ آ کے تِری ڈاک پہ رکھا

لشکر سے پرے ہٹ کے وضو کرتے رہے ہم

کردار ظفریابی کو مسواک پہ رکھا

تفضیل پس وقت یہ آیا ہے سمجھ میں

پندار کو بے کار بہت ناک پہ رکھا


تفضیل احمد

No comments:

Post a Comment