ہم خاک تھے لیکن نہ قدم خاک پہ رکھا
جو گرد اڑائی اسے افلاک پہ رکھا
مٹھی تھی ہواؤں میں کہ مٹھی میں ہوا تھی
کیوں کارکسانی خس و خاشاک پہ رکھا
سیراب کیے ابر منافق نے مِرے کھیت
لہرانے لگی فصل تو چکماک پہ رکھا
دریا ہو ہوا دشت، یہ کی ریت نے ترکیب
مچھلی کی جگہ ابر کو تیراک پہ رکھا
ہر بار کبوتر🕊 کو اچکنے لگے شاہین
تب زاغ کو تنگ آ کے تِری ڈاک پہ رکھا
لشکر سے پرے ہٹ کے وضو کرتے رہے ہم
کردار ظفریابی کو مسواک پہ رکھا
تفضیل پس وقت یہ آیا ہے سمجھ میں
پندار کو بے کار بہت ناک پہ رکھا
تفضیل احمد
No comments:
Post a Comment