زخم جب تک زباں نہیں ہوتے
وہ میرے مہرباں نہیں ہوتے
دوستی ہے یا دشمنی تم سے
ہم کبھی درمیاں نہیں ہوتے
مل کے بچھڑا تو اس میں حیرت کیا
حادثے ہیں، کہاں نہیں ہوتے؟
میں نے مجروح سے لیا ہے فیض
یونہی مصرعے رواں نہیں ہوتے
جن زمینوں کے اپنے دریا ہوں
ان کے پھر آسماں نہیں ہوتے
خواجہ جمشید امام
No comments:
Post a Comment