Wednesday, 5 November 2025

زخم جب تک زباں نہیں ہوتے

 زخم جب تک زباں نہیں ہوتے 

وہ میرے مہرباں نہیں ہوتے 

دوستی ہے یا دشمنی تم سے 

ہم کبھی درمیاں نہیں ہوتے

مل کے بچھڑا تو اس میں حیرت کیا

حادثے ہیں، کہاں نہیں ہوتے؟

میں نے مجروح سے لیا ہے فیض 

یونہی مصرعے رواں نہیں ہوتے 

جن زمینوں کے اپنے دریا ہوں 

ان کے پھر آسماں نہیں ہوتے


خواجہ جمشید امام

No comments:

Post a Comment