Wednesday, 5 November 2025

آنسوؤں میں کبھی ڈھلی ہے رات

 آنسوؤں میں کبھی ڈھلی ہے رات

درد بن کے کبھی اٹھی ہے رات

کوئی سورج کہیں سے آ جائے

کتنی ویران ہو گئی ہے رات

صبح سے ہمکلام ہونے کو

زینہ زینہ اتر رہی ہے رات

پھر اجالوں کا خوں ہوا شاید

قتل گاہوں میں بٹ گئی ہے رات

دل میں کہرام کم نہ ہو گا اثر

تم بھی سو جاؤ سو گئی ہے رات


محمد علی اثر

No comments:

Post a Comment