آنسوؤں میں کبھی ڈھلی ہے رات
درد بن کے کبھی اٹھی ہے رات
کوئی سورج کہیں سے آ جائے
کتنی ویران ہو گئی ہے رات
صبح سے ہمکلام ہونے کو
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
پھر اجالوں کا خوں ہوا شاید
قتل گاہوں میں بٹ گئی ہے رات
دل میں کہرام کم نہ ہو گا اثر
تم بھی سو جاؤ سو گئی ہے رات
محمد علی اثر
No comments:
Post a Comment