Tuesday, 4 November 2025

حضور بندۂ مزدور پر کرم کیجے

 انتباہ (اقتباس)


حضور بندۂ مزدور پر کرم کیجے

کرم نہیں نہ سہی پر ستم تو کم کیجے

بجا کہ خدمت آقا میں فرق مت آئے

یہ زندگی کا لہو قطرہ قطرہ بہہ جائے

بجا کہ اپنے مقدر پہ ناز ہو مجھ کو

غرور و جبر سے ربطِ نیاز ہو مجھ کو

بجا کہ دولتِ احساس مجھ سے چھن جائے

بجا کہ لذتِ آزار مجھ کو راس آئے

مگر حضور کبھی مجھ کو یہ بھی سمجھائیں

بپاسِ حُسنِ مروّت ہی غور فرمائیں

کہ تیز و تلخ کلامی کا مدّعا کیا ہے

شبانہ روز کی ذلّت کی انتہا کیا ہے

حضور بندۂ مزدور پر کرم کیجے

گرانئ شبِ تِیرہ کو کچھ تو کم کیجے

بجا کہ یہ مہ و انجم سے چہرہ تاب نہ ہو

یہ ذرہ، ذرۂ پامال آفتاب نہ ہو


صدیق کلیم

No comments:

Post a Comment