ایک گدھے کی فریاد
خدایا تو ہے مالک دو جہاں کا
زمین کا اور ساتوں آسماں کا
بہت پیاری سی یہ دنیا بنائی
ہزاروں رنگ کی صورت سجائی
شتر ہیں، اسپ ہیں، بکرے کہیں ہیں
زرافے ہیں کہیں، زیبرے کہیں ہیں
کہیں چیتے، کہیں جنگل کے سرتاج
کہیں بھالو، کہیں ہاتھی مہاراج
کسی کے لب پہ تُو نے دھار رکھ دی
کسی کی پونچھ میں تلوار رکھ دی
کسی کو سینگ کا ہتھیار بخشا
کسی کو پنجے کا اوزار بخشا
کسی کو بے پنہ طاقت عطا کی
کسی کو عقل کی دولت عطا کی
غرض سب کو محبت سے سنوارا
خوشی سے ہر کسی کا دل نکھارا
مگر ہم کو نوازا صرف غم سے
کیا کیسا عجب انصاف ہم سے
ہمیں بس نیکیوں کا گھر بنایا
خلوص و مہر کا پیکر بنایا
بہت ظالم ہے یہ دنیا الٰہی
یہاں نیکی میں ہے خالص تباہی
کمر پر ایسا لادی لادتے ہیں
کہ گھر سے گھاٹ تک دل کانپتے ہیں
نِجس کپڑے بھی ایسے توبہ توبہ
سڑی لاشیں ہوں جیسے توبہ توبہ
شکم بھر گھاس بھی چرنا ہے جوکھم
کہ باندھے رہتے ہیں پیروں کو ظالم
کبھی جو گیت بھی گائیں سنبھل کر
تو دوڑ آتے ہیں سب گھر سے نکل کر
سبب ہو یا نہ ہو ڈنڈوں سے ہر پل
ہماری پیٹھ کر دیتے ہیں گھائل
یہی انعام نیکی کا ملا ہے
یہی شاید شرافت کا صلا ہے
سکونِ دل نہ کچھ عزت خدایا
گدھا کس واسطے ہم کو بنایا؟
ضیاء الرحمٰن ضیاء اعظمی
No comments:
Post a Comment