Friday 25 December 2020

روشنی تیری تھی جس نے رنگ سے چھانا مجھے

 روشنی تیری تھی جس نے رنگ سے چھانا مجھے

ورنہ کب قوسِ قزح کے بس میں تھا پانا مجھے

میں تلاوت کر رہا ہوں رحلِ نسیاں پر تمہیں

تم بھی تسبیحِ فراموشی پہ دہرانا مجھے

عہدِ رفتہ کے شکستہ عکس کی تکرار ہوں

تم سمجھ بیٹھے ہو کوئی آئینہ خانہ مجھے

کھولتا ہوں شب کی جب کھڑکی تو نیلے صحن میں

چاند اک رکھا ہوا ملتا ہے ، روزانہ مجھے

تیری کڑواہٹ ہوں حامدؔ اور تِرے لہجے میں ہوں

اے مِرے شیریں سخن! تُو ہی نہ پہچانا مجھے


حامد یزدانی

No comments:

Post a Comment