عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
باطل کی سمت آنکھ اٹھائی نہ بھول کے
شبیرؑ آدمی تھے بڑے ہی اصول کے
کرتے تھے ہم علیؑ کی فضیلت کا تذکرہ
کیوں نقش بولنے لگے دوشِ رسولؐ کے
آلِؑ رسولﷺ ختم نہ ہو گی جہان سے
کوئی مٹا سکا ہے کہیں رنگ پھول کے
جوش عمل بہ صورتِ زینب عیاں ہوا
جوہر کھلے ہیں شام مین ذہنِ بتولؑ کے
سیدانیوں کے رخ کے لیے بن گئی نقاب
قربان اہلِ بیتؑ کے رستوں کی دھول کے
انسانیت کو اپنا لہو دیں نہ کیوں حسینؑ
پالے ہوئے ہیں یہ بھی نگاہِ رسولﷺ کے
ظالم سے کیجیے نہ وفا کی کوئی امید
نکا ہے کب گلاب شجر سے ببول کے
ممکن ہے روز حشر خدا خود کرے سوال
آنسو کہاں کہاں پہ گرے ہیں بتولؑ کے
وحیدالحسن ہاشمی
No comments:
Post a Comment