‘‘اقتباس از ’’فصیل اورنگ آباد
یہ فصیل پارینہ، یہ کھنڈر، یہ سناٹا
کس خیال میں گم سم ہے یہ رہگزر آخر
میں یہاں ٹھٹکتی ہوں سوچتی ہوں تھوڑی دیر
یہ شکستہ بام و در کیوں ہیں سو گوار آخر
گرد اڑ رہی ہے اب جس وسیع میدان سے
اس کو روند کر گزرے کتنے شہ سوار آخر
کتنے انقلاب آئے کتنے حکمراں بدلے
ہے یہ خاک کس کس کے خو ں سے داغدار آخر
کھو کے اپنی رونق کو یہ اداس ویرانے
کب تلک رہیں گے یوں محو انتظار آخر
مدتوں یہاں شاہی روندتی رہی سب کو
اور کب تلک چلتا ہے اس کا اقتدار آخر
بزم میں عیش و عشرت میں کیا کسی نے سوچا تھا
وقت توڑ دیتا ہے عیش کا خمار آخر
نشۂ حکومت سے کوئی جا کے یہ پوچھے
کیوں کھنڈر ہی رہتے ہیں تیری یاد گار آخر
ماتمی ہوائیں بھی بھر رہی ہیں آہیں سی
زیر خاک کس کس کے دل ہیں بے قرار آخر
حوصلوں امنگوں کی اک چتا سی جلتی ہے
دھیرے دھیرے سینے میں کوئی شئے پگھلتی ہے
شفیق فاطمہ شعریٰ
No comments:
Post a Comment