Thursday 4 July 2024

بھروسہ کر نہ کسی پر یہ دار فانی ہے

 بھروسہ کر نہ کسی پر، یہ دارِ فانی ہے

نئی جو چیز تھی کل تک وہ اب پرانی ہے

اس التفات سے میرا جنوں نہ کم ہو گا

زمیں کی پیاس ہے اور آسماں کا پانی ہے

لکھا ہوا تھا پرانی سی اک عمارت پر

شکست و ریخت بھی تہذیب کی نشانی ہے

کبھی کبھی تو مِرے ذہن میں یہ بات آئی

کہ جیسے خاک بھی افلاک کی نشانی ہے

اسے نکال دیا قیس نے قبیلے سے

دیارِ عشق میں جس نے بھی ہار مانی ہے


حسن جمیل

No comments:

Post a Comment