Thursday 4 July 2024

شہر آشوب جدید کبھی دیکھے ہیں اہل علم رسوا

 شہرِ آشوبِ جدید


کبھی دیکھے ہیں اہل علم رسوا؟

دکھاؤں آ تجھے یہ تلخ منظر

اسے کہتے ہیں قدر فضل و دانش

ظہیر و فیض ہیں زِنداں کے اندر

پڑا روتا ہے پا بستہ تخیل

لگے ہیں آج بھی پہرے زیاں پر

اڑایا جائے گا سر اس ادب کا

نہیں جو حاکموں کا مدح گستر

یہ منصوبے ہیں جلاوطن کے

پڑھے لکھوں پہ ہیں کیا کیا مصائب

نہیں یہ راز تجھ پر آشکارا

ہر اک کو ہے یہاں فکر معیشت

ہزاروں کا نہیں ہوتا گزارا

خوش آں روز سے کہ جب ہنگام مشکل

کوئی یا خدا! پر تھا سہارا

پر اب کہتے ہیں ارباب حکومت

خدا تیرا ہے، باقی سب ہمارا

عجب رشتے ہیں اس دارالمحسن کے


منیب الرحمٰن

فیض احمد فیض اور سید سجاد ظہیر کے لیے کہی گئی نظم

No comments:

Post a Comment