Friday 5 July 2024

حرز جاں ذکر شفاعت کیجیے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


حرزِ جاں ذِکرِ شفاعت کیجیے

نار سے بچنے کی صورت کیجیے

اُن کے نقشِ پا پہ غیرت کیجیے

آنکھ سے چُھپ کر زیارت کیجیے

اُن کے حُسنِ با ملاحت پر نثار

شیرۂ جاں کی حلاوت کیجیے

اُن کے در پر جیسے ہو مِٹ جائیے

ناتوانو! کچھ تو ہمت کیجیے

پھیر دیجے پنجۂ دیوِ لعیں 

مصطفیٰؐ کے بَل پہ طاقت کیجیے

ڈُوب کر یادِ لبِ شاداب میں 

آبِ کوثر کی سباحت کیجیے

یادِ قامت کرتے اُٹھیے قبر سے

جانِ محشر پر قیامت کیجیے

اُن کے در پر بیٹھیے بن کر فقیر

بے نواؤ! فکرِ ثروت کیجیے

جس کا حُسن اللہ کو بھی بھا گیا

ایسے پیارے سے محبت کیجیے

حئ باقی جس کی کرتا ہے ثناء

مرتے دم تک اس کی مِدحت کیجیے

عرش پر جس کی کمانیں چڑھ گئیں 

صدقے اس بازو پہ قوت کیجیے

نیم وا طیبہ کے پھولوں پر ہو آنکھ

بُلبلو! پاسِ نزاکت کیجیے

سر سے گِرتا ہے ابھی بارِ گُناہ

خم ذرا فرقِ اِرادت کیجیے

آنکھ تو اُٹھتی نہیں کیا دیں جواب

ہم پہ بے پُرسِش ہی رحمت کیجیے

عذر بد تر از گُنہ کا ذِکر کیا

بے سبب ہم پر عنایت کیجیے

نعرہ کیجے یا رسول اللہ کا

مفلسو! سامانِ دولت کیجیے

ہم تمہارے ہو کے کس کے پاس جائیں 

صدقہ شہزادوں کا رحمت کیجیے

مَنْ رَاٰنِی قَدْ رَأَی الْحَق جو کہے

کیا بیاں اس کی حقیقت کیجیے

عالمِ علم دو عالم ہیں حضورؐ

آپ سے کیا عرض حاجت کیجیے

آپ سلطانِ جہاں، ہم بے نوا

یاد ہم کو وقت نعمت کیجیے

تجھ سے کیا کیا اے مِرے طیبہ کے چاند

ظلمتِ غم کی شکایت کیجیے

در بدر کب تک پِھریں خستہ خراب

طیبہ میں مدفن عنایت کیجیے

ہر برس وہ قافلوں کی دُھوم دھام

آہ سُنیے اور غفلت کیجیے

پھر پلٹ کر مُنہ نہ اُس جانب کیا

سچ ہے اور دعوائے اُلفت کیجیے

اقرباء حُبِ وطن بے ہمتی

آہ کِس کِس کی شکایت کیجیے

اب تو آقاؐ مُنہ دِکھانے کا نہیں 

کِس طرح رفعِ ندامت کیجیے

اپنے ہاتھوں خود لٹا بیٹھے ہیں گھر

کس پہ دعوائے بضاعت کیجیے

کِس سے کہیے کیا کِیا کیا ہو گیا

خود ہی اپنے پر ملامت کیجیے

عرض کا بھی اب تو مُنہ پڑتا نہیں 

کیا علاجِ دردِ فُرقت کیجیے

اپنی اِک میٹھی نظر کے شہد سے

چارۂ زہرِ مصیبت کیجیے

دے خدا ہمت کہ یہ جانِ حزیں 

آپ پر واریں وہ صورت کیجیے

آپ ہم سے بڑھ کے ہم پر مہرباں 

ہم کریں جُرم، آپ رحمت کیجیے

جو نہ بُھولا ہم غریبوں کو رضا

یاد اُس کی اپنی عادَت کیجیے


احمد رضا بریلوی

No comments:

Post a Comment