Sunday 7 July 2024

کیا ایک یہاں پر ہے تو کیا ایک نہیں ہے

 کیا ایک یہاں پر ہے تو کیا ایک نہیں ہے

ہم بخت کے ماروں کو گِلا ایک نہیں ہے 

دُھتکار، دل آزاری، حقارت و تمسخر 

مزدور کی محنت کا صِلہ ایک نہیں ہے

زردار،۔ خریدار و دستار،۔ دکاں دار 

طے پایا کہ بندوں کا خدا ایک نہیں ہے

مے خوار، نمک خوار و خونخوار و دیں خوار 

یعنی کہ عبا ایک، قبا ایک نہیں ہے

غم خوار،۔ عزادار،۔ ستمگار،۔ اداکار 

طے پایا منافق کی ردا ایک نہیں ہے

لب پر ہے فلسطین مگر ان کا شکم دین

اے قبلۂ اول! یہ صدا ایک نہیں ہے

بد خواہ و خود بد تو بدی کی بھی خوشامد

یعنی کہ بُرے سب ہیں، بُرا ایک نہیں ہے

قامت کے قدر دان بھلا کیوں ہوئے بونے

وہ جن کی رسائی میں رسا ایک نہیں ہے

دل روئے سحاب اور ہنسے عقل مسلسل

حاکم میرے اندر بھی چھُپا ایک نہیں ہے


عارف سحاب

No comments:

Post a Comment