Tuesday 2 July 2024

بولنے کو چار جملے رہ گئے تھے

 بولنے کو چار جُملے رہ گئے تھے

اب وہاں کشتی کے ٹُکڑے رہ گئے تھے

پُھول سرشاری میں گِرتے رہ گئے تھے

لوگ آوازوں سے پیچھے رہ گئے تھے

اُس کی یادوں کے پرندے ساتھ آ کر

ڈُوبتی کشتی میں بیٹھے رہ گئے تھے

گِرتے ہی گُلدان زخمی ہو گئی شام

میز پر دو پُھول مہکے رہ گئے تھے

اُس نے ایسا لفظ تختی پر لکھا تھا

سب کے سب اِملائیں کرتے رہ گئے تھے

بنچ کے ٹُوٹے ہوئے بازو سے بچ کر

لوگ تیزی سے گُزرتے رہ گئے تھے

سب گھروندے مِٹ گئے فرحان، لیکن

ریت پر دو ہاتھ رکھے رہ گئے تھے


فرحان کبیر

No comments:

Post a Comment