کل رات میں نے خواب جو دیکھا نیا نیا
پھرتا تھا میری آنکھ میں چہرہ نیا نیا
اپنی وہ حد کو چھوڑ کے باہر نکل گیا
ملتا ہے جس بھی شخص کو رتبہ نیا نیا
تُو نے تو پھر غریب کو سمجھا ہی کچھ نہیں
آیا جو تیرے ہاتھ میں پیسہ نیا نیا
اک بار منزلوں کی تڑپ جس کو لگ گئی
کر لے گا پھر تلاش وہ رستہ نیا نیا
اندر تِرے یہ آگ لگا دے گا دیکھنا
تُو نے لباسِ عشق جو پہنا نیا نیا
اس پر کُھلا یہ راز محبت نہیں یہاں
جو بھی تمہارے شہر میں ٹھہرا نیا نیا
تُو ہی بتا کہ کیسے کروں اعتبار اب
کرتا ہے روز روز تو وعدہ نیا نیا
شہباز میری آنکھ سے آنسو نکل پڑے
غم میں کسی نے ہاتھ جو تھاما نیا نیا
شہباز ماہی
No comments:
Post a Comment