Tuesday 2 July 2024

کل رات میں نے خواب جو دیکھا نیا نیا

  کل رات میں نے خواب جو دیکھا نیا نیا

پھرتا تھا میری آنکھ میں چہرہ نیا نیا

اپنی وہ حد کو چھوڑ کے باہر نکل گیا

ملتا ہے جس بھی شخص کو رتبہ نیا نیا

تُو نے تو پھر غریب کو سمجھا ہی کچھ نہیں

آیا جو تیرے ہاتھ میں پیسہ نیا نیا

اک بار منزلوں کی تڑپ جس کو لگ گئی

کر لے گا پھر تلاش وہ رستہ نیا نیا

اندر تِرے یہ آگ لگا دے گا دیکھنا 

تُو نے لباسِ عشق جو پہنا نیا نیا

اس پر کُھلا یہ راز محبت نہیں یہاں

جو بھی تمہارے شہر میں ٹھہرا نیا نیا

تُو ہی بتا کہ کیسے کروں اعتبار اب

کرتا ہے روز روز تو وعدہ نیا نیا

شہباز میری آنکھ سے آنسو نکل پڑے

غم میں کسی نے ہاتھ جو تھاما نیا نیا


شہباز ماہی

No comments:

Post a Comment