Tuesday 2 July 2024

رخ سیاہ سنوارا نہیں گیا مجھ سے

 رُخِ سیاہ سنوارا نہیں گیا مجھ سے

چمکتے دن بھی ستارا نہیں گیا مجھ سے

دُعا کو ہاتھ بھی تھے اور فلک قریب بھی تھا

میں رو دیا کہ پُکارا نہیں گیا مجھ سے

میں زندگی سے فقط ایک دن ہی چاہتا تھا

وہ ایک دن بھی گُزارا نہیں گیا مجھ سے

یہ بات طے تھی مجھے صرف اس سے ہارنا تھا

وہ کھیل اس لیے ہارا نہیں گیا مجھ سے

کنویں میں چھوڑ تو آیا تھا یوسف دل کو

پر اس کے بعد اُبھارا نہیں گیا مجھ سے

میں راکھ ہوں، کوئی صُورت نہیں رہی میری

سو اب بھی رُوپ تمہارا نہیں گیا مجھ سے

تمام عُمر میں سُنتا رہا ہوں دل کی کہی

زباں کا قرض اُتارا نہیں گیا مجھ سے

ٹھہر گیا ہوں میں اک میخ کی طرح دل میں

مگر وہ سوچ کا دھارا نہیں گیا مجھ سے

وہی تو اب مِرا ہر زہر پی رہا ہے انیم

وہ ایک سانپ جو مارا نہیں گیا مجھ سے


ابو طالب انیم 

No comments:

Post a Comment