عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ناگاہ صبحِ منزلِ آخر عیاں ہوئی
لیکن یہ صبح سبطِؑ نبیؐ کو کہاں ہوئی
جس جا سواری رک کے نہ آگے رواں ہوئی
حیراں سپاہِ خسروِ کون و مکاں ہوئی
بدلے چھ گھوڑے دوشِ نبیؐ کے سوار نے
لیکن قدم اٹھایا نہ اک راہوار نے
وہ رخش جن سے ہوش ہوا کے اڑا کریں
گر اک اشارہ خامسِ آلِ عباؑ کریں
طے شش جہت کی راہ وہ چھ باد پا کریں
پڑجائیں بیڑیاں جو قضا کی تو کیا کریں
حیرت سے گھوڑے توسنِ تصویر بن گئے
نعلوں کے حلقے پاؤں کی زنجیر بن گئے
باشندوں کو وہاں کے یہ مولا نے دی صدا
نام اس زمیں کے جتنے ہیں لو تم جدا جدا
وہ بولے آپ کو ہو مبارک ہر ایک بلا
یہ نینوا ہے، ماریہ ہے اور کربلا
معبد ہے یہ کلیمؑ کا مولد مسیحؑ کا
شۂ بولے اب یہ ہوئے گا مدفن ذبیح کا
مرزا دبیر
سلامت علی دبیر
No comments:
Post a Comment