عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہجوم قاتلاں ہوتے ہوئے بھی
کہاں زینبؑ وہاں ہوتے ہوئے بھی
نہ آئے کیوں مرے عباسؑ اب تک
سروں کا سائباں ہوتے ہوئے بھی
یہ کس کی پیاس ہے تیروں سے چھلنی
لبِ آبِ رواں ہوتے ہوئے بھی
پلٹ آئی ہے خالی مشکِ غازیؑ
امیدِ تشنگاں ہوتے ہوئے بھی
یہ کیسا ظلم ہے آلِ عباء پر
حدیثِ جاوداں ہوتے ہوئے بھی
رسالت کا نگہباں اور تنہا
دلوں کا حکمراں ہوتے ہوئے بھی
اسیروں کا سُنا ہے کس نے نوحہ
سلاسل کی زبان ہوتے ہوئے بھی
جلے گا یہ دیا شامِ ابد تک
یزیدی آندھیاں ہوتے ہوئے بھی
نئے معنی کھلیں گے کربلا کے
پرانی داستاں ہوتے ہوئے بھی
اُلٹ دی ہے علی اصغرؑ نے بازی
تیرے تیر و کماں ہوتے ہوئے بھی
ملائے کون نظریں اُن سے حیدر
سرِ نوکِ سناں ہوتے ہوئے بھی
حیدر سلیم
No comments:
Post a Comment