Thursday 4 July 2024

دختران ملت گزر گیا دور نا مرادی مگر ابھی اس کی تلخیاں ہیں

 دُخترانِ مِلّت


گزر گیا دور نا مرادی مگر ابھی اس کی تلخیاں ہیں

اٹھی تو ہیں جھوم کر گھٹائیں، مگر گھٹاؤں میں بجلیاں ہیں

مآل فصل بہار یہ ہے کہ آج پژمُردہ گُل رُخاں ہیں

جگر شکستہ ہیں بند کلیاں، خراب و پامال پتیاں ہیں

میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں، جو آج گُلشن کے پاسباں ہیں

کہاں ہیں پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

خدا کے لطف و کرم سے ہم اب صعوبتوں سے گزر چکے ہیں

نشے جو غفلت کے ہم پہ طاری تھے آج وہ سب اُتر چکے ہیں

بگڑ چکے تھے، اُجڑ چکے تھے، بدل چکے ہیں، سنور چکے ہیں

ہم اپنے ملک و و طن کی خاطر، ہزار ہا کام کر چکے ہیں

مگر ابھی تک عذاب میں کیوں، ہزاروں قسمت کی ہیٹیاں ہیں

کہاں ہیں پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

یہ سُوئے کعبہ جو چل پڑے ہیں تو بن کے حاجی یہ آئیں گے کیا؟

یہ دیکھ آئیں گے گھر خدا کا، خدا کو منہ یہ دکھائیں گے کیا؟

وہ بخش دے تو کرم ہے اس کا، گناہ یہ بخشوائیں گے گیا؟

نبیؐ کے روضے پہ جائیں گے، یہ نبیؐ کو جا کر بتائیں گے کیا؟

یہی کہ غیروں کے پاس اب تک تمہاری اُمت کی بیٹیاں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

وہ آج واہگہ کے پار دیکھو یہ کون ہیں بے قرار اب تک

وہ کر رہے ہیں جنہیں درندے ذلیل لیل و نہار اب تک

وہی جنہیں تم بُھلا چکے ہو ہیں محوِ صد انتظار اب تک

تمہاری حالت پہ رو رہی ہیں تمام زار و قطار اب تک

تڑپ رہی ہیں سسک رہی ہیں، اُٹھا رہی ہیں جو سختیاں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

خدارا! جلدی خبر لو ان کی، وہ دشمنوں میں گھری ہوئی ہیں

تمہاری راہ تکتے تکتے بیچاریوں کی آنکھیں بھی تھک گئی ہیں

وہ آتشِ انتقام مذہب میں آج بے جُرم جل رہی ہیں

سنو! اے مذہب کے دعویدارو! وہ اپنا مذہب بدل چکی ہیں

کہ بیگمیں بن گئیں ہیں کوریں، جو بیبیاں تھیں وہ دیویاں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

مگر یہاں جس طرف بھی دیکھو، قیادتیں ہی قیادتیں ہیں

عجب سیاست ہے کارفرما، رقابتیں ہی رقابتیں ہیں

اصول ہر چند کچھ نہیں ہے، جماعتیں ہی جماعتیں ہیں

دماغ و دل پر مگر مسلّط، وزارتیں ہی وزارتیں ہیں

سوال کرتی ہے قوم اُن سے جو قوم کے غم میں نوحہ خواں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

تمہارے سر پر کھڑا ہے دُشمن، خدارا! غفلت سے باز آؤ

اگر کوئی کام جانتے ہو، تو پھر کوئی کام کر دکھاؤ

مذاق فطرت بدل چکا ہے، ہنسی نہ فطرت کی اب اُڑاؤ 

تمہاری لونڈی سہی قیادت، مگر نہ یوں قہقہے لگاؤ

تمہارے ان قہقہوں کی تہ میں، خبر بھی ہے کتنی سِسکیاں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

یہ کھیت، باغات، کارخانے، تو پھر بھی ہیں دوستو! تمہارے

یہ کوہ وصحرا یہ دشت و دریا ہیں ملک و ملت کا مال سارے

یہاں کی ہر چیز ہے تمہاری، فلک زمین اور چاند تارے

مگر وہ جن کے سبب سے چشم وطن ہے نیچی حیا کے مارے

خدارا! پہلے انہیں نکالو، وہ زندہ درگور نیم جاں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

میں ان سے ہرگز نہیں مخاطب جو بعد صد ترکتاز آئے

سنیں وہ جن کی چہتیوں کے لیے ہوائی جہاز آئے

ہزار ہا داشتائیں آئیں، ہزار ہا نے نواز آئے

نہ آئیں سیدانیاں نہ آئیں، مگر گویّوں کے ساز آئے

تہی ہے سوزِ دروں سے سینہ، زباں پہ نغمہ طرازیاں ہیں

کہاں ہیں پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

تمہاری فرد نسب پہ جب تک نہ ہوں گی مہریں تمہارے خون کی

کوئی یہ باور نہیں کرے گا کہ تم ہو اولاد غازیوں کی

ڈرو، کہ ترتیب دے رہا ہے زمانہ فہرست مجرموں کی

مبادا، تم پر یہ حرف آئے، نہ لی خبر تم نے بے کسوں کی

تمہاری اس بے حسی پہ تم سے، تمام اقوام بدگماں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟

کرو توازن سلف سے اپنا، دلوں کو بھی ہمدمو! ٹٹولو

تم اپنے کردار کو بھی جانچو، تم اپنی گُفتار کو بھی تولو

تم ہی ہو تاریخ کے مرتب، یہ وقت ہے اپنی آنکھ کھولو

قلم مؤرخ کے ہاتھ میں ہے، نہ لکھنے پائے، یہ داغ دھو لو

وگرنا پھر لاکھ بار چاہو، نہ مٹ سکیں گے، یہ وہ نشاں ہیں

کہاں ہیں، پچپن ہزار مظلوم و بے نوا عورتیں کہاں ہیں؟


خلیق ملتانی

No comments:

Post a Comment