Wednesday 10 July 2024

جس کی جرأت پر جہان رنگ و بو سجدے میں ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


جس کی جرأت پر جہانِ رنگ و بو سجدے میں ہے

آج وہ رمز آشنائے "سِرِّ ہُو" سجدے میں ہے

ہر نفس میں انشراحِ صدر کی خوشبو لیے

منزلِ حق کی مجسّم جستجو سجدے میں ہے

کیسا عابد ہے یہ مقتل کے مصلیٰ پر کھڑا

کیا نمازی ہے کہ بے خوفِ عدو سجدے میں ہے

اے حسینؑ ابن علیؑ! تجھ کو مبارک یہ عروج

آج تُو اپنے خدا کے رو برو سجدے میں ہے

جانبِ کعبہ جھُکا مولودِ کعبہ کا پسر

قبلہ رُو ہو کر حسینِؑ قبلہ رُو سجدے میں ہے

ابنِ زہراؑ! اس تیری شانِ عبادت پر سلام

سر پہ قاتل آ چکا ہے اور تُو سجدے میں ہے

اللہ، اللہ، تیرا سجدہ اے شبیہِ مصطفیٰﷺ

جیسے خود ذاتِ پیمبر ہُو بہ ہُو سجدے میں ہے

تھا عمل پیرا جو "كَلَّا لَا تُطِعْہُ"، پر وہ آج

بن کے "وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ" کی آرزو سجدے میں ہے

یہ شرف کس کو ملا تیرے علاوہ بعدِ قتل

سر ہے نیزے کی بلندی پر، لہو سجدے میں ہے

محوِ حیرت ہیں ملائک، دم بخود ہے کائنات

آج مقتل میں علیؑ کا ماہ رُو سجدے میں ہے

سر کو سجدے میں کٹا کر کہہ گیا زہراؑ کا لال

کچھ اگر ہے تو بشر کی آبرو سجدے میں ہے

کون جانے، کون سمجھے، کون سمجھائے نصیر

عابد و معبود کی جو گفتگو سجدے میں ہے


سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment