پونچھیں گے مِرے دیدۂ پُر نم کو، نہیں تو
کیا سمجھیں گے یہ لوگ مِرے غم کو، نہیں تو
رہتے ہیں کسی عہدِ اذیت کے جنوں میں
سوچا ہے سکوں کے کبھی موسم کو، نہیں تو
دل مثلِ عزا دار لہو روتا ہے ہر دم
یہ درد فقط اٹھے محرّم کو، نہیں تو
ایماں ہے محبت پہ سو ہوں قابلِ نفرت
دیکھے گا جہاں قلب کے عالم کو، نہیں تو
اب تو تِرے دیدار سے ہی زخم بھریں گے
مر جائیں گے مرتے ہوئے مرہم کو نہیں تو
جو اشک کو پیتے ہوئے سیراب ہوئے ہیں
وہ لوگ کبھی ترسے ہیں زم زم کو؟ نہیں تو
یہ بارہویں برسی ہے مِری موت کی، لیکن
سمجھا ہے کوئی موتِ مجسّم کو؟ نہیں تو
اٹھا ہوں سحاب اس کے سہارے پہ میں ورنہ
ہاتھوں کی طلب ہے مِرے پرچم کو، نہیں تو
عارف سحاب
No comments:
Post a Comment