زمانے میں ریاکاری بہت ہے
تمہیں جس کی طرفداری بہت ہے
جہاں تم ہو وہاں شاید سکوں ہو
جہاں میں ہوں، وہاں خواری بہت ہے
خدا را! ترک کر طرزِ تغافل
کہ اب جینے میں دشواری بہت ہے
تمہی کہہ دو، جدا ہی کیوں رہیں ہم
کہ تم میں تو سمجھداری بہت ہے
ٹھہر جاتی ہیں نظریں تجھ پہ آ کر
وہ کیا ہے نا کہ تُو پیاری بہت ہے
تِری آنکھوں پہ میں قربان جاؤں
تِری آنکھوں میں بیداری بہت ہے
فیاض اسود
No comments:
Post a Comment