Friday 12 July 2024

حسین تنہا کھڑا ہوا ہے (شعور کی کربلا سے)

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت

شعور کی کربلا سے


حسینؑ تنہا کھڑا ہُوا ہے

فراتِ حق کی نڈھال موجیں

ہمارے ذہنوں کے ساحلوں پر

خود اپنے چہروں سے

منہ چُھپائے ہوئے پڑی ہیں

ہماری فکروں کے سرد لاشے

زمینِ کربل کے زرد سُورج کے

آبلوں سے اٹے ہوئے ہیں

انہیں کفن بھی نہیں ملا ہے

حسینؑ تنہا کھڑا ہُوا ہے

منافقت کے یزید اب تک

خیامِ شاہِ حرم پہ نیزے گِرا رہے ہیں

اسیر زینبؑ کے آنچلوں کو جلا رہے ہیں

یہاں تلک کہ ہر ایک گودی میں آنے والا

عظیم سچ بھی بِلک رہا ہے

حسینؑ تنہا کھڑا ہُوا ہے

ہماری راتوں میں اب تلک اس

حرم کی شامِ غریب جیسا

ملال اور خوف جاگتا ہے

ہمارے حرفوں کا سچ مُقیّد، ضمیر قیدی 

کہیں سے ہم کو پُکارتا ہے

حسینؑ تنہا کھڑا ہُوا ہے

سو آؤ، ذہن و شعور کی کربلا سے

فُراتِ حق کے نئے دنوں کا

یہ آب لے لیں

کہ آؤ، "ھل من" کی اس صدا کا

جواب دے دیں


ثروت زہرا 

No comments:

Post a Comment