Friday 5 July 2024

اے میرے شہر کے لوگو مجھے پتھر مارو

 اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو

سر ہتھیلی پر اٹھا کر ہوں یہاں تک پہنچا 

قلزم خون میں نہا کر ہوں یہاں تک پہنچا

اپنا گھر بار لٹا کر ہوں یہاں تک پہنچا

بچے معصوم کٹا کر ہوں یہاں تک پہنچا

پھر بھی احساس نہیں مجھ کو ذرہ بھر مارو

اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو

بدلی ہرگز نہ روش اپنی پرانی میں نے

قیمت و قدر نہ آزادی کی جانی میں نے

بلکہ سمجھے ہی نہیں اس کے معانی میں نے

رکھی محفوظ نہ قائد کی نشانی میں نے

مجھ سا ہو گا نہ کوئی شخص ستم گر مارو

اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو

خادم قوم بنا پھرتا ہوں خدمت کے بغیر

زر کماتا ہوں شب و روز میں محنت کے بغیر

نیک کہتے ہیں مجھے لوگ پر سیرت کے بغیر 

کام کرتا نہیں لوگوں کے میں رشوت کے بغیر

مجھ سے راشی کو پکڑ کر سر دفتر مارو

اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو

میں نے چھینا ہے تقاریر سے ملت کا سکوں

نفرت و بغض و حسد میرے خصوصی مضموں

میں نے دیکھا نہیں کیا؟ قوم کا اب حال زبوں

اثرانداز ہے یہ میر ی خطابت کا فنوں

صرف دو چار نہیں، جھولیاں بھر کر مارو

اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو

فرقہ بازی میں ملوث ہوئی ملت مجھ سے

یعنی تخریب کی پیدا ہوئی صورت مجھ سے

اہل شر سیکھنے آتے ہیں شرارت مجھ سے

اور ابلیس بھی لیتا ہے ہدایت مجھ سے

ویسے بھی حکم ہے ابلیس کو کنکر مارو

اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو

اپنے منہ سے منافق نہ فسادی ہوں میں

لوگ کہتے ہیں کہ تفریق کا عادی ہوں میں

سازِ پُر درد پہ اک نغمہ شادی ہوں میں

آپ ہی اپنی تباہی کی منادی ہوں میں

میں پشیماں ہوں مجھے سوچ سمجھ کر مارو

اے میرے شہر کے لوگو! مجھے پتھر مارو


خلیق ملتانی

No comments:

Post a Comment