Thursday 11 July 2024

کیوں قلب ستمگر میں ہے کہرام نیا سا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کیوں قلبِ ستمگر میں ہے کہرام نیا سا

زنجیر سے یہ کس نے لیا کام نیا سا

اے میرے قلم باندھ کے احرام نیا سا

کر مدحتِ سجادؑ میں کچھ کام نیا سا

نکلا تھا میں سجادؑ کی مدحت کے سفر میں

منظر نظر آیا مجھے ہر گام نیا سا

قیدی ہے پہ حیدرؑ کی طرح بول رہا ہے

انداز ہے عابدؑ کا سرِ شام نیا سا

ہر اک کی سزا طے ہے پہ اے دشمنِ سجادؑ

ہونا ہے تِرا حشر میں انجام نیا سا

بے دِین، گُنہگار، نصیری بھلا کب تک؟

دے عشقِ علیؑ میں مجھے الزام نیا سا

جس طرح کیا خار کو دُر تم نے سرِ راہ

اس طرح ہو اس فخر پہ اکرام نیا سا


فخر عباس رضوى

No comments:

Post a Comment