ہم اپنے آہ کو ڈھونڈیں کہاں کہاں لوگو
اندھیری رات میں ملتا نہیں نشاں لوگو
میں اپنی شکل نہ پہچان پائی شیشے میں
یہ کیا ہوا میرا چہرہ گیا کہاں لوگو
ہر ایک آرزو دھوکہ ہر ایک خواب فریب
وہ خواب، خوابِ سفر ہے دھواں دھواں لوگو
سُلگ رہے ہیں ہزاروں ہی داغ پہلو میں
یہ میرا دل نہیں روشن ہے آسماں
کھلیں جو پھول تو لگتا ہے زخم جلتے ہیں
بھری بہار بھی لگتی ہے اب خزاں لوگو
اڑا کے لے گئی آندھی کتابِ دل کے ورق
حدیثِ غم کے بگولے ہیں رازداں لوگو
ہمارا شیشۂ دل چُور چُور ہے حُسنٰی
ہے دوستوں کا کرم جورِ دشمناں لوگو
حسنٰی سرور
No comments:
Post a Comment