Thursday, 8 May 2025

نہ جانے آج کیوں ضد پر اڑی ہے

 نہ جانے آج کیوں ضد پر اڑی ہے

محبت سامنے میرے کھڑی ہے

زمانے کو بڑھاوے کی ہے عادت

وگرنہ بات کب اتنی بڑی ہے

بھلا کیوں وقت بھاگا جا رہا ہے

گھڑی تو سامنے میرے پڑی ہے

محبت نے ہمیں آپس میں جوڑا 

یہ کتنی خوبصورت ہتھکڑی ہے

نہ میری نظم کو بے کار سمجھو

چمکتے موتیوں کی اک لڑی ہے

لہو بھی کھینچ لیتی ہے رگوں سے

بڑی ظالم جدائی کی گھڑی ہے

مِری غزلیں ہیں عنبر پھول جیسی

مِرا ہر ایک مصرع پنکھڑی ہے


فرحانہ عنبر

No comments:

Post a Comment