نہ جانے آج کیوں ضد پر اڑی ہے
محبت سامنے میرے کھڑی ہے
زمانے کو بڑھاوے کی ہے عادت
وگرنہ بات کب اتنی بڑی ہے
بھلا کیوں وقت بھاگا جا رہا ہے
گھڑی تو سامنے میرے پڑی ہے
محبت نے ہمیں آپس میں جوڑا
یہ کتنی خوبصورت ہتھکڑی ہے
نہ میری نظم کو بے کار سمجھو
چمکتے موتیوں کی اک لڑی ہے
لہو بھی کھینچ لیتی ہے رگوں سے
بڑی ظالم جدائی کی گھڑی ہے
مِری غزلیں ہیں عنبر پھول جیسی
مِرا ہر ایک مصرع پنکھڑی ہے
فرحانہ عنبر
No comments:
Post a Comment