صحرا کا کوئی پھول معطر تو نہیں تھا
تھا ایک چھلاوا کوئی منظر تو نہیں تھا
پھر کیوں تری تصویر ڈھلی روح میں میری
افسوں تِری آنکھوں کا مصور تو نہیں تھا
بن کر مِرا اپنا وہ بنا حسرت جاوید
تھا خاک کا پتلا ہی مقدر تو نہیں تھا
میں بھی تِری خلوت کا کوئی ناز چراتا
ایسا کوئی قسمت کا سکندر تو نہیں تھا
افسانہ تِری زلف کا اے جان تمنا
میں کیسے سناتا مجھے ازبر تو نہیں تھا
تلخابۂ دل تھا کہ حوادث کا شرر تھا
فریاد نہ کرتا کوئی پتھر تو نہیں تھا
عظیم قریشی
No comments:
Post a Comment