Thursday, 8 May 2025

منزل پہ شام ہو گئی سورج بھی ڈھل گیا

 منزل پہ شام ہو گئی سورج بھی ڈھل گیا

کانٹا ہمارے پاؤں کا آخر نکل گیا

زُلفوں کے رات رات اندھیروں کے درمیاں

ننھا سا اک چراغ محبت کا جل گیا

آنکھیں جھکی جھکی رہیں پلکوں کے بوجھ سے

جانے کہاں سے تیر اچانک ہی چل گیا

سایوں سے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو گئے

جب سامنے کھڑے ہوئے خطرہ بھی ٹل گیا

پھیلی تھیں پیڑ کی جڑیں کیا دُور دُور تک

آندھی میں کھا کے کتنے ہی بل پھر سنبھل گیا

آنکھیں کُھلیں تو چاند کی چھٹکی تھی چاندنی

ہم سو رہے تھے آ کے وہ چادر بدل گیا


دیپک قمر

No comments:

Post a Comment