منزل پہ شام ہو گئی سورج بھی ڈھل گیا
کانٹا ہمارے پاؤں کا آخر نکل گیا
زُلفوں کے رات رات اندھیروں کے درمیاں
ننھا سا اک چراغ محبت کا جل گیا
آنکھیں جھکی جھکی رہیں پلکوں کے بوجھ سے
جانے کہاں سے تیر اچانک ہی چل گیا
سایوں سے بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو گئے
جب سامنے کھڑے ہوئے خطرہ بھی ٹل گیا
پھیلی تھیں پیڑ کی جڑیں کیا دُور دُور تک
آندھی میں کھا کے کتنے ہی بل پھر سنبھل گیا
آنکھیں کُھلیں تو چاند کی چھٹکی تھی چاندنی
ہم سو رہے تھے آ کے وہ چادر بدل گیا
دیپک قمر
No comments:
Post a Comment