غازیوں او ر شہداء کے نام
لہو مقدس تھا بہہ گیا ہے
وہ جذبہ دلبرانہ
وہ جہدِ عاشقانہ
وہ تقویٰ زاہدانہ
اب دِل ہے عارفانہ
آنکھوں میں اِک چمک تھی
تکبیر کی چہک تھی
ہتھیاروں کی کھنک تھی
بارود کی مہک تھی
مائیں اور بہنیں بیٹھیں
دعائیں وہ کر رہی ہیں
اپنی محبتوں کے
دامن وہ بھر رہی ہیں
اُس طرف تذبذب
اِس پار ہیں مجاہد
دیکھو ایماں فروزاں
یہ دلنشیں شواہد
شیروں کے جیسے لڑنا
وہ آگے آگے بڑھنا
دشمن کی ان صفوں میں
اِک خوف بن کے چڑھنا
بے خوف وہ اجل سے
یوں مُسکرا رہا ہے
اب جانبِ وہ دشمن
بڑھتا ہی جا رہا ہے
شہید کا لہو تھا
زمیں پہ نہ گرنے پایا
اللہ نے اس کو پہلے
جنت محل دِکھایا
کیا میں کہوں کہ اب تو
جذبے وہ کھو گئے ہیں
دشمن حقیر تھے جو
غالب وہ ہو گئے ہیں
شہادت وہ مرتبہ ہے
نبیوں نے مانگا رو کے
درجہ یہ پا گیا ہے
توفیقِ رب سے ہو کے
اللہ کے راستوں کی
ہے دُھول جس نے کھائی
اِس دنیا کی حقیقت
نظروں میں اس کے رائی
اللہ سے یہ دُعا ہے
ماجدؔ کو بھی دِکھا دے
جو راستہ ہے تیرا
اُس پر مجھے چلا دے
عبدالماجد ہاشمی
No comments:
Post a Comment