Thursday, 1 May 2025

روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے

 روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے

لطف جینے کا وہی کچھ پائے ہے

یوں مٹا جاتا ہے راہ عشق میں

خاک پروانہ یہی بتلائے ہے

وعدہ آنےکا کیا ہے آئیں گے

اے دلِ ناداں کیوں گھبرائے ہے

آہ مظلوماں سے سچ ہے ہمنشیں

آسماں کیا عرش بھی تھرائے ہے

آپ نے شاعر کہا شاعر ہوں میں

شاعری ورنہ مجھے کب آئے ہے

ساحل امید پا کر اے شفیع

کشتی امید ڈوبی جائے ہے


شفیع اللہ بہرائچی

No comments:

Post a Comment