روگ الفت کا جسے لگ جائے ہے
لطف جینے کا وہی کچھ پائے ہے
یوں مٹا جاتا ہے راہ عشق میں
خاک پروانہ یہی بتلائے ہے
وعدہ آنےکا کیا ہے آئیں گے
اے دلِ ناداں کیوں گھبرائے ہے
آہ مظلوماں سے سچ ہے ہمنشیں
آسماں کیا عرش بھی تھرائے ہے
آپ نے شاعر کہا شاعر ہوں میں
شاعری ورنہ مجھے کب آئے ہے
ساحل امید پا کر اے شفیع
کشتی امید ڈوبی جائے ہے
شفیع اللہ بہرائچی
No comments:
Post a Comment