Monday, 5 May 2025

کارل مارکس بـے بسی کی گفاؤں میں بیٹھے

 کارل مارکس


بـے بسی کی گُفاؤں میں بیٹھے

اِن غلاموں کی یہی فطرت ہے

زندگی بھر یہ دوزخی رہ کر

اِس خواہش کا بُت بناتے ہیں

موت کے بعد جئیں جنت میں

بیٹھ کر سامنے سدا بُت کے

چین کی بانسری بجاتے ہیں

پھر عقائد کی اوڑھ کر چادر

اپنے اپنے خداؤں کے در پر

روز افیون کے لگائیں کش

اور دُعاؤں کے دُھویں میں کھو کر

بھُول جاتے ہیں غُلامی کا عذاب

آج بھی ہے یہ جہالت جاری

آج تک ہے غنودگی طاری

معبدوں، جھونپڑوں، بازاروں میں

مُفلسی روز گڑگڑاتی ہے

کارخانوں میں ویشیاؤں سی

دل لُبھاتی ہے اپنے مالک کی

بھُوک سے دیکھ بلکتے بچّے

جیتی رہتی ہیں مائیں مر مر کے

باپ کاندھوں پہ اُٹھا کر ذمے

تنگ اُجرت میں گرانی سہہ کر

زندگی گور میں گُزارے ہے

مولوی، چودھری کہ ساہُوکار

ہیں معزز اسی غریبی سے

ان لُٹیروں کی مرتبت کا بھرم

اسی لعنت کی دین ہے لوگو

سب گناہوں کی کوکھ ہے غربت

جس سے مجبور زندگی پا کر

کوڑیوں بھاؤ میں بیچے عصمت

سب غلاموں کی لونڈیا محنت

چار سُو نارسا فقیری ہے

چند لوگوں کی بس امیری ہے

جن کے پنجوں سے خُوں ٹپکتا ہے

جن کے ناخن کُھرچتے رہتے ہیں

زندگی کے حسین چہرے کو

اِنہی سرمایہ دار جتھوں کی

ہوتی رہتی ہے مفادات کی جنگ

جس میں ایندھن کا کام آتے ہیں

عام لوگوں کے بے وقعت لاشے

یہ بلاؤں کا وہ شکنجہ ہے

جس میں انسانیت کی گردن ہے

بنی آدمؑ کے پنپنے کے لیے

اس سے چھٹکارہ بہت لازم ہے

زندگی کا یہی ہے روگ جسے

تم نے سمجھایا کارل مارکس ہمیں

ہم تمہارے بہت آبھاری ہیں


عمران ثاقب

*آبھاری; مشکور، شکرگزار، Thankful

No comments:

Post a Comment