ایسے ہرجائی سے کوئی کس طرح یاری کرے
بھول کر اپنوں کو جو غیروں کی غمخواری کرے
سب کے آگے تو بنا پھرتا ہے وہ معصوم سا
جب ہمارے سامنے آئے تو مکاری کرے
وہ کلرکی سے ترقی پا کے افسر ہو گیا
حرکتیں لیکن ابھی تک وہ بھی بازاری کرے
افسری کی دھاک کیا کم تھی کہ شاعر ہو گیا
شاعر سرکار ہے کیوں کام سرکاری کرے
اچھے اچھے کی اچھل جاتی ہے پگڑی عشق میں
پاس ہو عزت کا جس کو جاگے گھر داری کرے
کس قدر مجبور ہے انسان روٹی کے لیے
روپ دھارے نت نئے کیسی اداکاری کرے
خود ہی اکسائے شریعت کے لیے وہ مرد حق
لوگ جب مانگیں شریعت تو حدیں جاری کرے
گاؤں والوں کا گلہ ہے شہر والوں سے عظیم
شہر والے عیش اڑائیں محنتیں ہاری کرے
باسط عظیم
No comments:
Post a Comment