Monday, 5 May 2025

ایسے ہرجائی سے کوئی کس طرح یاری کرے

 ایسے ہرجائی سے کوئی کس طرح یاری کرے

بھول کر اپنوں کو جو غیروں کی غمخواری کرے

سب کے آگے تو بنا پھرتا ہے وہ معصوم سا

جب ہمارے سامنے آئے تو مکاری کرے

وہ کلرکی سے ترقی پا کے افسر ہو گیا

حرکتیں لیکن ابھی تک وہ بھی بازاری کرے

افسری کی دھاک کیا کم تھی کہ شاعر ہو گیا

شاعر سرکار ہے کیوں کام سرکاری کرے

اچھے اچھے کی اچھل جاتی ہے پگڑی عشق میں

پاس ہو عزت کا جس کو جاگے گھر داری کرے

کس قدر مجبور ہے انسان روٹی کے لیے

روپ دھارے نت نئے کیسی اداکاری کرے

خود ہی اکسائے شریعت کے لیے وہ مرد حق

لوگ جب مانگیں شریعت تو حدیں جاری کرے

گاؤں والوں کا گلہ ہے شہر والوں سے عظیم

شہر والے عیش اڑائیں محنتیں ہاری کرے


باسط عظیم

No comments:

Post a Comment