زندگی آج یہ کس موڑ پہ لے آئی ہے
بھیڑ نظروں میں ہے احساس میں تنہائی ہے
یہ الگ بات کہ انجان نظر آئی ہے
زیست سے ویسے تو برسوں کی شناسائی ہے
جیسے آتا ہو دبے پاؤں کوئی پاس مِرے
اس طرح دل کے دھڑکنے کی صدا آئی ہے
یہ خوشی اور یہ غم ہے یہ فغاں ہے یہ ضبط
زندگی سوچ لے جس میں تِری اچھائی ہے
ایک دنیا کہ ہمارے لیے بے چین مگر
ایک وہ شخص کہ خاموش تماشائی ہے
آپ شہرت کی بلندی سے اتر کر دیکھیں
آپ کے قدموں سے لپٹی ہوئی رُسوائی ہے
کیوں نہ اشعار میں ہو کیف وہی میرے نصیب
مے جلیلی ہے تو ساغر مِرا بینائی ہے
داؤد نصیب
No comments:
Post a Comment