Monday, 5 May 2025

نظر کی بات پہنچے گی نظر تک

 نظر کی بات پہنچے گی نظر تک

اُڑے گی دُھول پھر دیوار و در تک

کوئی منزل تصوّر ہی ہے شاید

سفر کوئی ہو پہنچے گا سفر تک

ابھی اک بُوند چُپکے سے گِری ہے

کوئی آیا تھا شاید چشمِ تر تک

مَرے جب ہم کوئی چرچا نہ نکلا

مِرے قاتل ہی پہنچے تھے خبر تک

بھلے لمبی ہو غم کی رات کتنی

کوئی بھی رات رہتی ہے سحر تک


دھرو نرائن گپت

Dhruv Narain Gupt

No comments:

Post a Comment