ابھی کشمیر باقی ہے
جسے کل مار کر سمجھے تھے تم کہ جیت لی بازی
اسی غیرت کے پیکر کی ابھی ہمشیر باقی ہے
وہ جس کے ہاتھ کی مہندی ادھوری رہ گئی کل شب
نہ جانے کون رانجھا تھا، یہ کس کی ہیر باقی ہے
تمہیں لگتا ہے لکھی جا چکی بارود سے قسمت
لہو سے لکھ رہے ہیں ہم، ابھی تحریر باقی ہے
کوئی ہمت کرے، چپ توڑ دے، پڑھ کر ہلا ڈالے
ایوانِ عدل میں جو آخری زنجیر باقی ہے
گھروں میں چھپ کے بیٹھی ہیں، مگر ہاری نہیں محسن
جو سر پہ اوڑھ رکھی ہے وہ اک شمشیر باقی ہے
ابھی کشمیر باقی ہے
محسن عباس حیدر
No comments:
Post a Comment