جہاں بارود پھٹتا ہے، فنا کا رقص کرتا ہے
لہو معصوم جانوں کا بھی کیا کیا رقص کرتا ہے
ہمارا ہی تماشا ہے لگا دربار دنیا میں
ہمیں خود ہیں تماشائی، تماشا رقص کرتا ہے
کہ اس کی راکھ سے شاید نیا سورج طلوع ہو گا
وہ اک پنچھی یہاں پھر سے فنا کا رقص کرتا ہے
کوئی لرزاں نشانی ہے لہو میں اب تلک باقی
کہ جس دُھن پر مِرے دل کا جزیرہ رقص کرتا ہے
تمہارا خواب آنکھوں میں کہیں پر چھپ کے رہتا ہے
کبھی رقصاں لہو میں ہو جدا سا رقص کرتا ہے
کہیں پر ایک صحرا ہے مجھے آواز دیتا ہے
مِرے اندر بھی شاید اک بگولا رقص کرتا ہے
محمود ناصر ملک
No comments:
Post a Comment