Friday, 9 May 2025

دل پہ یادوں کا بار تھوڑی ہے

 دل پہ یادوں کا بار تھوڑی ہے

اشک پلکوں کے پار تھوڑی ہے

یونہی دہلیز پر جمی ہے نظر

آپ کا انتظار تھوڑی ہے

خواب کے خوشنما جزیرے پر

پریوں کا ہی سنگھار تھوڑی ہے

کوئی چُپکے سے کان میں بولا

پُھولوں پر ہی بہار تھوڑی ہے

پل وہ چاہت کے تھے بڑے دلکش

مجھ پہ اَب تک خُمار تھوڑی ہے

سردیوں کی اُداس شاموں میں

آہ دل بے قرار تھوڑی ہے

گو مُعافی تو مانگ لی اُس نے

ہاں مگر شرمسار تھوڑی ہے

راہ میں تھک کے رکنے والو سُنو

کھیل بچوں کا، پیار تھوڑی ہے

تم پہ مرتے ہیں مر بھی جائیں گے

سانسوں پہ اِختیار تھوڑی ہے

یہ جو مغمومِیت ہے رسماً ہے

وہ مِرا غمگسار تھوڑی ہے

یہ صداقت بیانی ہے میری

دل میں ایمن غبار تھوڑی ہے


ایمن جنید

No comments:

Post a Comment