دل پہ یادوں کا بار تھوڑی ہے
اشک پلکوں کے پار تھوڑی ہے
یونہی دہلیز پر جمی ہے نظر
آپ کا انتظار تھوڑی ہے
خواب کے خوشنما جزیرے پر
پریوں کا ہی سنگھار تھوڑی ہے
کوئی چُپکے سے کان میں بولا
پُھولوں پر ہی بہار تھوڑی ہے
پل وہ چاہت کے تھے بڑے دلکش
مجھ پہ اَب تک خُمار تھوڑی ہے
سردیوں کی اُداس شاموں میں
آہ دل بے قرار تھوڑی ہے
گو مُعافی تو مانگ لی اُس نے
ہاں مگر شرمسار تھوڑی ہے
راہ میں تھک کے رکنے والو سُنو
کھیل بچوں کا، پیار تھوڑی ہے
تم پہ مرتے ہیں مر بھی جائیں گے
سانسوں پہ اِختیار تھوڑی ہے
یہ جو مغمومِیت ہے رسماً ہے
وہ مِرا غمگسار تھوڑی ہے
یہ صداقت بیانی ہے میری
دل میں ایمن غبار تھوڑی ہے
ایمن جنید
No comments:
Post a Comment