ہر خرد مند تو محفل میں بہانے سے اٹھا
ضبط کا بار فقط ایک دوانے سے اٹھا
بھول بیٹھے ہیں تجھے سارے زمانے والے
ہاتھ اب تو بھی تو بے درد زمانے سے اٹھا
ہاں میری نیک مزاجی میری کمزوری تھی
سارا فتنہ تو مِرے ہاتھ ملانے سے اٹھا
جس کی ہر بات پر تارے سے چٹک جاتے تھے
کیسا چپ چاپ وہ بے درد زمانے سے اٹھا
ہائے کیا موت کی لوری تھی یہ الجھا ہوا گیت
ایسا سویا کہ کسی کے نہ جگانے سے اٹھا
زندگی تو اسے ہر گام پہ ٹھکراتی رہی
موت، اے موت! جنازہ تو ٹھکانے سے اٹھا
میری فریاد پہ خاموش رہے اہلِ جہاں
میں ہوا چپ تو ظفر شور زمانے سے اٹھا
ظفر ابن متین
No comments:
Post a Comment