Saturday, 10 May 2025

ہر خرد مند تو محفل میں بہانے سے اٹھا

 ہر خرد مند تو محفل میں بہانے سے اٹھا

ضبط کا بار فقط ایک دوانے سے اٹھا

بھول بیٹھے ہیں تجھے سارے زمانے والے

ہاتھ اب تو بھی تو بے درد زمانے سے اٹھا

ہاں میری نیک مزاجی میری کمزوری تھی

سارا فتنہ تو مِرے ہاتھ ملانے سے اٹھا

جس کی ہر بات پر تارے سے چٹک جاتے تھے

کیسا چپ چاپ وہ بے درد زمانے سے اٹھا

ہائے کیا موت کی لوری تھی یہ الجھا ہوا گیت

ایسا سویا کہ کسی کے نہ جگانے سے اٹھا

زندگی تو اسے ہر گام پہ ٹھکراتی رہی

موت، اے موت! جنازہ تو ٹھکانے سے اٹھا

میری فریاد پہ خاموش رہے اہلِ جہاں 

میں ہوا چپ تو ظفر شور زمانے سے اٹھا


ظفر ابن متین

No comments:

Post a Comment