Saturday, 10 May 2025

رات کے ڈر سے فضا میں خامشی بہنے لگی

 رات کے ڈر سے فضا میں خامشی بہنے لگی

سب ستارے گر گئے اور چاندنی بہنے لگی

آنکھ کیسے موڑ پر میری کھلی تھی نیند میں

خواب میں تصویر تھی جو ادھ بنی بہنے لگی

واقعے کیسے سناؤں تیز آندھی کے تمہیں

کتنی مشکل سے بنی تھی جھونپڑی بہنے لگی

سارے چہرے کھو گئے بس سسکیاں کانوں میں تھیں

جب اندھیرے جل گئے اور روشنی بہنے لگی

وہ تمنا آرزو جس کی جنونی ہو گئی

ایک صحرا دل میں اس کی تشنگی بہنے لگی

اک قیامت اور کوئی زلزلہ سا مجھ میں تھا

جب میرے اندر کی اپنی شانتی بہنے لگی

آنکھ سے گرنے لگی اور سانس بھی رکنے لگی

آہ کے دریا میں میری زندگی بہنے لگی


وصاف باسط

No comments:

Post a Comment