اے خیال یار جب تک ساتھ تو چلتا رہا
آندھیوں میں بھی چراغ زندگی جلتا رہا
مسکرا کر میں کٹھن راہوں پہ بھی
کھلنے والوں کو میرا یہ حوصلہ کھلتا رہا
پھوٹتے ہی آبلے پاؤں کے مٹ جائے کا سوز
میں اسی امید پر کانٹوں پہ بھی چلتا رہا
آنسوؤں سے بھی تو بجھ پائی نہ میرے دل کی آگ
بارشیں ہوتی رہی اور میرا گھر جلتا رہا
خواہشوں نے کچھ سمجھنے کی نہ دی فرصت مجھے
زندگی اک خواب تھی میں خواب میں ڈھلتا رہا
تھی مِری ماں کی دعا راہِ عمل میں میرے ساتھ
موت کا جو وقت تھا وہ ہر قدم ٹلتا رہا
جس کو اپنے خون سے سینچا تھا ہم نے اے مینک
وہ شجر ویرانے میں بھی پھولتا پھلتا رہا
مینک اکبرآبادی
کے کے سنگھ
No comments:
Post a Comment