Monday, 12 May 2025

اے خیال یار جب تک ساتھ تو چلتا رہا

 اے خیال یار جب تک ساتھ تو چلتا رہا

آندھیوں میں بھی چراغ زندگی جلتا رہا

مسکرا کر میں کٹھن راہوں پہ بھی

کھلنے والوں کو میرا یہ حوصلہ کھلتا رہا

پھوٹتے ہی آبلے پاؤں کے مٹ جائے کا سوز

میں اسی امید پر کانٹوں پہ بھی چلتا رہا

آنسوؤں سے بھی تو بجھ پائی نہ میرے دل کی آگ

بارشیں ہوتی رہی اور میرا گھر جلتا رہا

خواہشوں نے کچھ سمجھنے کی نہ دی فرصت مجھے

زندگی اک خواب تھی میں خواب میں ڈھلتا رہا

تھی مِری ماں کی دعا راہِ عمل میں میرے ساتھ

موت کا جو وقت تھا وہ ہر قدم ٹلتا رہا

جس کو اپنے خون سے سینچا تھا ہم نے اے مینک

وہ شجر ویرانے میں بھی پھولتا پھلتا رہا


مینک اکبرآبادی

کے کے سنگھ

No comments:

Post a Comment